Babari masjid ..... afsoooooooooos

ایودھیا کیس: بابری مسجد کی متنازع زمین پر مندر بنے گا، مسلمانوں کو مسجد کے لیے الگ زمین دینے کا حکم 51 منٹ پہلے اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں وٹس ایپ اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر شیئر انڈیا کی سپریم کورٹ نے اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کے بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ متنازع زمین ایک ٹرسٹ کے حوالے کی جائے۔ یہ ٹرسٹ مرکزی حکومت تین مہینے کے اندر تشکیل دے۔ ‏عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا کے اندر کسی نمایاں مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل پانچ ایکڑ زمین دی جائے۔ مندر مسجد کے اس پرانے تنازعے کا فیصلہ سنانے والے بینچ کی صدارت چیف جسٹس رنجن گوگئی کر رہے ہیں۔ باقی چار ججوں میں جسٹس شرد اردون بوبڈے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس ایس عبدالنظیر شامل ہیں۔ فیصلے کے اہم نکات: جہاں بابری مسجد کے گنبد تھے وہ جگہ ہندوؤں کو دی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ سنی وقف بورڈ کو مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین نمایاں جگہ پر دی جائے۔ متنازع زمین پر ہندوؤں کا دعویٰ جائز ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے تین مہینوں میں ایودھیا کے بارے میں ایکشن پلان تیار کرنے کو کہا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ ایک مدعی نرموہی اکھاڑے کو ٹرسٹ میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ مرکزی حکومت کرے گی۔ نرموہی اکھاڑے کے دعوے کو مسترد کردیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر مالکانہ حق نہیں دیا جاسکتا ہے۔ بابری مسجد کے نیچے ایک ایسا ڈھانچہ ملا ہے جو اپنی ہیت میں اسلامی نہیں ہے۔ ایودھیا سے متعلق فیصلہ دیتے ہوئے چیف جسٹس جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا کہ آثار قدیمہ کے شواہد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ فیصلہ سناتے ہوئے سب سے پہلے چیف جسٹس نے متنازع زمین پر شیعہ وقف بورڈ کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ مسلمانوں کی جانب سے سنی وقف بورڈ کے ساتھ شیعہ وقف بورڈ نے بھی اپنا دعوی پیش کیا تھا۔ Image caption مسلمانوں کا موقف رکھنے والے وکیلوں کی ٹیم فیصلہ آنے سے قبل ایودھیا اور پورے ملک میں سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔ ایودھیا میں متنازع مقام سمیت اہم عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ کئی مقامات پر انسداد دہشت گردی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ایودھیا میں دفعہ 144 کے تحت حکم امتناعی نافذ کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت 16 اکتوبر 2019 کو مکمل کر لی تھی۔ یہ بھی پڑھیے بابری مسجد کیس: کب کیا ہوا؟ ’صرف بابری مسجد ہی نہیں بلکہ بہت کچھ ٹوٹا‘ انڈین سپریم کورٹ کی تاریخ کا ’مشکل ترین مقدمہ‘ بابری مسجد کی کہانی، تصویروں کی زبانی تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES Image caption سنہ 1992 میں انہدام سے قبل بابری مسجد اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ریاست کے عوام سے اپیل کی کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہو اسے قبول کریں اور ہر قیمت پر ریاست میں امن بر قرار رکھیں۔ انھوں نے اپنی اپیل میں کہا کہ ’امن برقرار رکھنے کی ذمہ داری اجتماعی طور پر سبھی کی ہے‘۔ ریاست میں احتیاطی طور پر سنیچر سے پیر تک سبھی سکول اور کالجز اور تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے۔ یو پی پولیس نے کئی شہروں میں فلیگ مارچ کیا۔ ریاستی پولیس کے سربراہ اوم پرکاش سنگھ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ریاستی پولیس عدالت کا فیصلہ آنے سے قبل گزشتہ کئی روز سے مختلف برادریوں سے کمیونٹی میٹنگ کر رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پولیس کے ماہرین سوشل میڈیا پر خاص طور پر نظر رکھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگئی سترہ نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ حکومت نے گذشتہ دنوں مسلم اور ہندو مذہبی رہنماؤں کی ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں ان سے درخواست کی گئی کہ وہ ملک میں امن وامان برقرا ر رکھنے کی اپیل کریں۔ ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی حال میں مسلم رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ ہندو تنظیموں نے بھی اپنے حامیوں سے اپیل کی ہے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں آتا ہے تو وہ کوئی جشن نہ منائیں اور نہ ایسا کوئی بیان دیں جس سے کسی دوسرے فرقے کو تکلیف پہنچے اور اگر فیصلہ مندر کے حق میں نہیں آتا تو وہ حکومت پر بھروسہ رکھیں۔ تصویر کے کاپی رائٹSHIB SHANKAR CHATTERJEE/BBC Image caption سپریم کورٹ کے سامنے میڈیا کی بھیڑ رام مندر اور بابری مسجد کی تاریخ کیا ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ اور یہاں پر بابری مسجد کی تعمیر ایک مسلمان نے سولہویں صدی میں ایک مندر کو گرا کر کی تھی۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز پڑھتے رہے ہیں، جس کے بعد کچھ لوگوں نے رات کی تاریکی میں رام کے بت مسجد میں رکھ دیے تھے۔ مسلمانوں کے مطابق اس مقام پر بتوں کی پوجا اس واقعے کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔ اس کے بعد کے چار عشروں میں کئی مسلمان اور ہندو تنظیمیں اس زمین پر اختیار اور عبادت کے حق کے لیے عدالتوں کا رخ کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس تنازع میں شدت 1992 میں اس وقت آئی تھی جب ہندو انتہا پسندوں نے مسجد کو تباہ کر دیا۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں ہونے والے مذہبی ہنگاموں میں کم و بیش دو ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سنہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ میں شامل دو ہندو ججوں نے کہا تھا کہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اس مقام پر جو عمارت تعمیر کی تھی وہ مسجد نہیں تھی، کیوںکہ ایک مندر کے مقام پر مسجد کی تعمیر 'اسلام کے اصولوں کے خلاف' ہے۔ تاہم بینچ میں شامل مسلمان جج نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے اس مقام پر کسی مندر کو نہیں گرایا گیا تھا، بلکہ مسجد کی تعمیر ایک کھنڈر پر ہوئی تھی۔ تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES بابری مسجد کیسے تباہ کی گئی؟ چھ دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد کے کارکنوں، بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں اور ان کی حامی تنظیموں کے کارکنوں نے مبینہ طور پر تقریاً ڈیڑھ لاکھ رضاکاروں کے ہمراہ اس مقام پر چڑھائی کر دی۔ یہ جلوس وقت کے ساتھ ساتھ پرتشدد ہوتا گیا اور وہ کئی گھنٹے تک ہتھوڑوں اور کدالوں کی مدد سےمسجد کی عمارت کو تباہ کرتے رہے۔ اس واقعے کے بعد اس وقت کے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما نے ریاست اتر پردیش کی اسمبلی کو برخواست کرتے ہوئے ریاست کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اور پھر 1993 میں ایک صدارتی حکم کے تحت بابری مسجد کے ارد گرد زمین کا 67.7 ایکڑ رقبہ وفاقی حکومت نے اپنے اختیار میں لے لیا۔ اس کے بعد بابری مسجد کے واقعے کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس میں بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد کے کئی رہنماؤں سمیت 68 افراد کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس کیس کی سماعت اب تک جاری ہے۔ہے؟

Comments